تحریر : سید قلب نواز سبزواری
حوزہ نیوز ایجنسی। حُریت کے لغوی معنی آزادی، غلامی سے نجات ، خُود مختاری کے ہیں، حُریت /آزادی ایک نعمت سے کم نہیں، لیکن جب فلسطین و کشمیر کا نام آتاہے تو ذہن میں ایک ایسی منظر کشی سامنے آجاتی ہے کہ جس سے دل رنجیدہ ہوجاتا ہے کہ اپنی زمین پر بسنے والے بے گھر، دربدر اور بہیمانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور دربدر ہونے والے( پناہ گزین یہودی /کشمیر کے پنڈت ہندو)گھروں اور زمین کے مالک بن بیٹھےہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ دونوں مقبوضہ علاقوں کی کہانی ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہے اور دونوں مسلم ہیں ۔اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دونوں کے مستقبل کا تعین کرنے والوں کا سکرپٹ رائیٹر بھی ایک، پوشیدہ ہاتھ بھی ایک ، منفی سوچ و منزل بھی ایک، اہداف بھی ایک، اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے والی پالیسی بھی ایک،انسانیت کو شرمادینے والے اقدامات بھی ایک ، خواتین کی بے حرمتی کا انداز بھی ایک ، قید و بند کی تکالیف بھی ایک اور خود ہی قاتل تو خود ہی منصف بھی ایک، جیسے کا مصداق ہو تو امن کیسے ممکن ہو؟
فلسطین کی موجودہ صورت حال و مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم، قتال، فلسطینی زمین پر اور بیت المقدس(قبلہ اوّل ) پرصیہونی کنٹرول و قبضہ عربوں کی سنگین ناقص پالیسیوں اور دانستہ و غیر دانستہ طور پرسرزد غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔ قدیم زمانے میں، فلسطین پر وقفے وقفے سے متعدد آزاد سلطنتوں اور متعدد عظیم طاقتوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا رہا۔ بشمول قدیم مصر، فارس، سکندر اعظم اور اس کے جانشین، رومن سلطنت، متعدد مسلم خاندانوں ، صلیبی جنگوں اور سلطنت عثمانیہ کے بعد برطانیہ کا راج تھا( اس لئے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا) اُس وقت یہاں پر عرب آبادی اکثریت میں جبکہ یہودی آبادی اقلیت میں تھی۔
1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان، اور برطانوی حکومت کے خلاف پُرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔
1947ءمیں اقوام متحدہ نے دو فیصلے کئے جو تاحال بین الاقوامی تنازع کی مرکزی متنازعہ حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں ایک مسئلہ فلسطین اور دوسرا مسئلہ کشمیر۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرمنصوبہ بندی کے ذریعے فلسطینی عوام کی اُمنگوں کے برعکس بذریعہ ووٹنگ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جن میں ایک یہودی ریاست (اسرائیل ) اور ایک عرب مسلم ریاست (فلسطین ) بنی جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر قرار پایا ۔
مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر یہ دونوں ہی مسلم اُمہ کے سلگتے ہوئے مسئلے ہیں یہ مسئلے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت برطانوی سامراج نے اقوام متحدہ کے ذریعے پیداکئے۔جبکہ مسئلہ کے حل کیلئے اقوام متحدہ میں درجنوں قراردادیں پاس ہونے کے باوجود دونوں اہم مسائل یوں کے توں ہیں اور حل کی طرف جانے کی بجائے روز بروزگھمبیرہوتے جارہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی سیاسی بصیرت مسلمہ ہے کہ انہوں نے اسرائیلی ریاست کو ناجائز ریاست اور کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، قائد اعظم محمد علی جناح کے بدترین مخالف بھی ان کی دوراندیشی اور اعلیٰ سیاسی فہم و بصیرت کے مداح تھے۔مقبوضہ علاقوں ( فلسطین و کشمیر) میں ظلم و ستم کی داستانیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ان کی زبانیں فلسطین و کشمیر کے مسئلہ پر گنگ ہیں ۔
روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اورانڈین فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی نسل کشی ، خواتین کی عصمت دری ، مسلمان آبادی کے تناسب کی برابری کیلئے یہودی و پنڈت ہندﺅں کی آباد کاری کے منصوبے کا سرچشمہ ایک ہی ہے ۔ شیلنگ ، فائرنگ ، کرفیو فلسطینیوں اور کشمیریوں کا مقدر بن گئی ہے ۔جب کہ اسلامی ممالک کے سربراہان صرف بیانات کی حدتک متحرک نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر کسی ملک نے کھل کر کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی کارکردگی اور عرب لیگ کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے ۔
1967ءمیں بین الاقوامی اعتراضات کے باوجود اسرائیل نے ان مقبوضہ علاقوں میں بستیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔ 2007 ءمیں حماس نے غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی سے حاصل کیا، جو اب مغربی کنارے تک محدود ہے۔گزشتہ 25سالوں میں اسرائیل و فلسطین کے مابین امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے مگر معاملات حل نہیں ہوسکے ۔اسرائیل نے خطے میں بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جسے پورے مغرب اور بالخصوص امریکہ کی حمایت حاصل رہی۔
ایک وقت وہ تھا جب فلسطینی نوجوان ، بچے ہاتھ میں پتھر اور غلیل کےساتھ چلتی بکتربند گاڑیوں اورصیہونی فوج کے جد ید ہتھیاروں کے ساتھ مقابلہ کرتے نظر آتے تھے اور صیہونی فوج اپنی طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث فلسطینی عوام پر اپنا رعب اور ظلم ستم کا بازار گرم رکھتے ہوئے اپنے اہداف کی تکمیل میں سرگرم عمل نظر آتی تھی اور اسرائیلی فورس بے خوف مقبوضہ علاقوں میں گھس کر آپریشن کرتی اور ظلم وستم ڈھاتی نظر آتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ فلسطینی حریت پسند گروپوں نے منظم انداز میں مضبوط فکراور وطن کی آزادی کی تڑپ کے ساتھ اسرائیلی فوجی جارحیت کا راستہ روکنے اورانہیں دندان شکن جواب دینے کیلئے حزب اللہ کے تعاون سے غزہ پٹی کے نوجوانان فلسطین، تنظیم حماس نے تربیت حاصل کی اور اس سطح تک پہنچے کہ فلسطینی انجینئرز خود راکٹ اور میزائل بنا نے لگے۔
ایسا پہلی بار ہوا کہ فلسطینی نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر اور غلیل کی جگہ مزائیل آگئے اور ان مزائیلوں کی بارش نے اسرائیل کی نیندیں حرام کر دیں اور اسرائیلی بارڈر سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور شہروں کو نشانہ بنا یاجانے لگا اور ا ن مزائیلوں نے تل ابیب میں صیہونی اہداف کا تعاقب کیا ۔ یہ فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غزہ سے اسرائیل پر مزائیلوں کی بارش تھی جس نے یہودیوں کے دلوں پر خوف طاری کر دیا۔
اسرائیل اپنے مضبوط دفاعی نظام آئرن ڈوم کے زُعم میں علاقے پر برتری قائم رکھے ہوئے تھا اور جد ید ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باعث فلسطین کے مقابلے میں سو گنا زیادہ طاقت ور محسوس ہوتا تھا جس کا ڈنکہ اور توتی پوری دنیا میں گونجتا تھا ۔ پوری دنیا کے سامنے جدید ٹیکنالوجی اور جدید فوجی سازو سامان کے بغیر فلسطین کی تنظیم حماس نے اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کو ناکام بناتے ہوئے اپنے مزائیل اسرائیل کے شہروں پر داغنے اور نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل کی جس سے اسرائیلیوں کا غرور خاک میں مل گیا۔
پہلی دفع صیہونی خوف کا شکار ہوئے اور زیر زمین بنائے گئے بینکرز میں گیارہ دن چھپے رہے یہ مکافات عمل ہے کہ وہ خوف جو اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کے بچوں ، خواتین ، نوجوانوں ، بزرگوں میں دہائیوں سے پید ا کرتی چلی آرہی تھیں وہی خوف اللہ تعالیٰ کی مدد سے حماس نے اسرائیلی بچوں ، خواتین ، نوجوانوں ، بزرگوں اور انکی ریاست اور فورسز میں پید ا کر دیا ہے اب صیہونی اپنے آپ کو اسرائیل میں غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں ۔فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل کو شرمناک تاریخی شکست دیکر مقبوضہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کیلئے راہیں ہموار کردی ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے موقع پر ٹی وی خطاب میں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہانیہ کاکہنا تھاکہ حماس نے اسرائیل کی وحشیانہ پالیسیوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسرائیل کے پورے نظام، عوام اور مستقبل کو انتہائی دردناک شکست سے دوچار کیا۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی نئی جنگی حکمت عملی اور صلاحیت نے پورے اسرائیلی نظام کو ہلاکر رکھ دیاہے اسرائیل کی پسپائی اللہ کی حمایت کے بعد نئی جنگی حکمت عملی کے باعث ممکن ہوئی۔حماس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تمام فلسطینی جماعتیں اور عوام یکجا ہوکر اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے اور اسرائیل کو واضح پیغام دیا کہ مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ سمیت فلسطین کے کسی بھی زمین کے ٹکرے پر کوئی بھی سمجھوتہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
لازوال قربانیوں کے بعد ہی فتح نصیب ہوتی ہے اورجو حکمت عملی فلسطین کے حریت پسندوں نے اپنائی وہ اپنی جگہ درست ہے فلسطین اور کشمیرکی آزادی کیلئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ دونوں خطوں کی عوام آپس میں متحد رہیں انشااللہ وہ دن دور نہیں جب دونوں مقبوضہ علاقوں میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا موجودہ صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ بہترین حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ صیہونیت اور ہندوتوا جیسے انتہاء پسندانہ سوچ ، اقدامات و بیانیہ کا خاتمہ ممکن ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔